Explore more in Video
پچیسویں آئینی ترمیم کے وقت سابق فاٹا سے این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد حصہ خرچ کرنے کا وعدہ ہوا تھا
جب سے ہم ایوان میں آئے ہیں ہم اس ایوان اور حکومت کی توجہ ان اضلاع کی طرف لانا چاہتے ہیں
ضم اضلاع کے مسائل پختونخوا کے دیگر مسائل سے بہت مختلف اور حساس ہیں
ایک طرف وہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے تو دوسری طرف وہاں کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں ہورہا
این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد لگانے کا جو وعدہ ہوا تھا وہ حصہ آج تک ان اضلاع کو نہ مل سکا
وفاق میں ضم اضلاع کے بجٹ بارے سٹیرنگ کمیٹی بنی تو ہماری امید پیدا ہوئی کہ ضم اضلاع کے عوام کو انکا حق مل جائے گا
صوبے میں پچھلی حکومت میں ضم اضلاع کے فنڈز کو صوبے کے دیگر اضلاع میں استعمال کیا گیا
حکومت ہمیں اسکی کیا گارنٹی دے سکتی ہے کہ اس دفعہ یہ فنڈز ضم اضلاع میں ہی خرچ ہوں گے
اس ایوان میں اپوزیشن کے تین اراکین کا تعلق ضم اضلاع سے ہے
یہ حکومت اتنی تنگ نظر ہے کہ ان سے یہ تین اراکین بھی برداشت نہیں ہوتے کہ انکو فنڈز دیں
میرے ضلع میں میرے فنڈ کو تین غیر منتخب افراد میں تقسیم کیا گیا ہے
ضم اضلاع کے ساتھ وفاقی حکومت ناانصافی کررہی تو یہ صوبائی حکومت بھی اپوزيشن کے ان تین ممبران کو برداشت نہیں کررہی ہے جن کا تعلق ضم اضلاع سے ہے
ڈی ڈی سی کے اجلاس متعلقہ اضلاع کے منتخب ایم پی ایز کی بجائے غیر منتخب لوگوں کے کہنے پر منعقد کئے جارہے ہیں
کیا یہ ناانصافی اور زیادتی نہیں؟ کیا یہ اخلاقی اور آئینی طور پر جائز ہے؟
ضم اضلاع اور بالخصوص باجوڑ میں پچھلے تین چار دن سے آپریشن جاری ہے
ہم 22 جنوری کو فخر افغان باچا خان اور ولی خان کی برسی کی مناسبت جلسہ کرنے جارہے تھے
حالات کی خرابی کو جواز بنا کر ضلعی انتظامیہ نے ہمیں این او سی نہیں دی
26 جنوری کو بدامنی کے خلاف باجوڑ میں امن پاسون کا انعقاد ہونا تھا، ضلعی انتظامیہ نے اسکی بھی اجازت نہیں دی
امن کیلئے نکلنے کی بھی صوبائی اور وفاقی حکومت اجازت نہیں دے رہی
امن کا مطالبہ کرنا بھی اس ریاست میں جرم بن گیا ہے
صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بدامنی کے خلاف جدوجہد کی اونرشپ لے
قیام امن جن اداروں اور محکموں کی ذمہ داری ہے انکو احکامات جاری کئے جائیں
This news was issued from Bacha Khan Markaz, Peshawar, Pakhtunkhwa at 2025-01-28 18:59:47 by Web Section (Haseeb Alam).
Video URL: https://www.facebook.com/video.php?v=659027823578582
Original Source